چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
ہم سے تو بت کافر بہ خدا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
افسوس عدم سے آ کے کیا کیا ہم نے گلشن ہستی میں
جوں شبنم و گل رویا نہ ہنسا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
اس آئینہ رو کے وصل میں بھی مشتاق بوس و کنار رہے
اے عالم حیرت تیرے سوا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
دل کوئے بتاں میں جا بیٹھا دم خانۂ تن کو چھوڑ گیا
حیف آخر کار رفیق اپنا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
یا بہر طواف کعبہ گئے یا معتکف بت خانہ ہوئے
کیا شیخ و برہمن ہم نے کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا
تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
کھینچ اس کو نہ لایا جذبۂ دل تاثیر نہ کچھ نالے ہی نے کی
میں دونوں کا بس شاکی ہی رہا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
اس لب کا لیا بوسہ نہ کبھو ہیہات نہ لپٹا پاؤں سے
دل تجھ سے برنگ پان و حنا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
مجنوں تو پھرا جنگل جنگل فرہاد نے چیرا کوہ دلا
میں آہ رہا بے دست و پا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
دن کو بھی نہ دیکھا ہم نے اسے شب خواب میں بھی یارو نہ ملا
اس طالع خفتہ کا ہووے برا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
نزدیک نصیرؔ اپنے آساں فرمائش تھی گویا یہ غزل
کچھ اس کا بھی کہنا مشکل تھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
غزل
چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
شاہ نصیر