چھین لے قوت بینائی خدایا مجھ سے
دیکھا جاتا نہیں اب تیرا تماشا مجھ سے
ایک مدت سے عزا دار علم دار ہوں میں
ٹوٹنے والا نہیں پیاس کا رشتہ مجھ سے
گھٹتا رہتا ہوں میں ویران حویلی کی طرح
بھاگتا پھرتا ہے ہنگامۂ دنیا مجھ سے
اب کسی میں بھی یہاں تاب سماعت نہ رہی
کوئی سنتا ہی نہیں ہے مرا قصہ مجھ سے
مجھ کو ہر لمحہ قناعت نے سرافراز کیا
مفلسی ورنہ ترا بوجھ نہ اٹھتا مجھ سے
چین سے کٹتی ہے اب خیمۂ گمنامی میں
کوئی رشتہ ہی نہیں خلق خدا کا مجھ سے
دیکھتا ہی نہیں وہ میری بلندی کی طرف
یعنی شرمندہ ہے اب وقت کا زینہ مجھ سے
فاقہ مستی میں بھی قائم ہے مری کج کلہی
اور کیا چاہتی ہے عظمت رفتہ مجھ سے
کب اتاروگے مرے جسم سے غربت کا لباس
پوچھتی ہے مری دیوار شکستہ مجھ سے

غزل
چھین لے قوت بینائی خدایا مجھ سے
سلطان اختر