چھلک رہی ہے مئے ناب تشنگی کے لئے
سنور رہی ہے تری بزم برہمی کے لئے
نہیں نہیں ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں
تجھے بھی بھول گئے ہم تری خوشی کے لئے
جو تیرگی میں ہویدا ہو قلب انساں سے
ضیا نواز وہ شعلہ ہے تیرگی کے لئے
کہاں کے عشق و محبت کدھر کے ہجر و وصال
ابھی تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لئے
جہان نو کا تصور حیات نو کا خیال
بڑے فریب دئے تم نے بندگی کے لئے
مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں
جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے
غزل
چھلک رہی ہے مئے ناب تشنگی کے لئے
زہرا نگاہ