چھاؤں سے اس نے دامن بھر کے رکھا ہے
جس نے دھوپ کو اوپر سر کے رکھا ہے
پل پل خون بہاتا ہوں ان آنکھوں سے
میں نے خود کو مندہ مر کے رکھا ہے
ساری بات ہی پہلے قدم کی ہوتی ہے
پہلا قدم ہی تو نے ڈر کے رکھا ہے
اپنے ہی بس پیچھے بھاگتا رہتا ہوں
خود کو ہی بس آگے نظر کے رکھا ہے
خود ہی کھڑے ہوئے ہیں اپنے پیروں پر
ہاتھ اپنا ہی اوپر سر کے رکھا ہے
شاذؔ اس سے ہی خوش ہوتا ہے وقت استاد
یاد سبق سب جس نے کر کے رکھا ہے
غزل
چھاؤں سے اس نے دامن بھر کے رکھا ہے
زکریا شاذ