چھاؤں کو تکتے دھوپ میں چلتے ایک زمانہ بیت گیا
حسرتوں کی آغوش میں پلتے ایک زمانہ بیت گیا
آج بھی ہیں وہ سلگے سلگے تیرے لب و عارض کی طرح
جن زخموں پر پنکھا جھلتے ایک زمانہ بیت گیا
میں اب اپنا جسم نہیں ہوں صرف تمہارا سایہ ہوں
موسم کی یہ برف پگھلتے ایک زمانہ بیت گیا
اب تک اپنے ہاتھ نہ آیا سرمئی چھاؤں کا دامن بھی
چاندی جیسی دھوپ میں جلتے ایک زمانہ بیت گیا
وقت مداری ہے کیا جانے کھیل اپنا کب ختم کرے
سانسوں کی اس ڈور پہ چلتے ایک زمانہ بیت گیا
زندگی اور لمحوں کا تعاقب جن کا کوئی اور نہ چھور
صدیوں صدیوں موڑ بدلتے ایک زمانہ بیت گیا
اب بھی تری محراب سخن میں شمعیں سی روشن ہیں فضاؔ
سورج کو یہ آگ اگلتے ایک زمانہ بیت گیا
غزل
چھاؤں کو تکتے دھوپ میں چلتے ایک زمانہ بیت گیا
فضا ابن فیضی