چھانتا ہے خاک کیا تو گھر بنانے کے لیے
فکر رہنے کی نہ کر آیا ہے جانے کے لیے
اور کو کیا رنج دوں راحت اٹھانے کے لیے
ایک تنکے کو نہ چھیڑوں آشیانے کے لیے
برق تھی بیتاب میرے آشیانے کے لیے
ابر سے بھی پیشتر آئے جلانے کے لیے
کام آئی مرغ گلشن کے مری کاہیدگی
لے گیا تنکا سمجھ کر آشیانے کے لیے
اس چمن سے گل چلے بلبل گریباں پھاڑ کر
ہے جنوں تنکے جو چننے آشیانے کے لیے
ہم نے کیوں مانگی تھی گلشن میں دعائے جوش گل
اب جگہ ملتی نہیں ہے آشیانے کے لیے
پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھی وہی
صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے
ہوں وہ غم دیدہ ہنسے کوئی تو میں رونے لگوں
کچھ بہانا چاہئے آنسو بہانے کے لیے
سایہ پڑ جائے اگر زلف دراز یار کا
پھر کہوں میں بھی تسلسل ہے زمانے کے لیے
ہوں وہ دیوانہ کہ بن کر ہو وہ مجنوں کی شبیہ
میری مٹی لیں اگر لیلیٰ بنانے کے لیے
پہنچی ہے شانے تلک کیا یار کی زلف رسا
درد کیوں پیدا ہوا ہے میرے شانے کے لیے
جملہ تن ہے چشم نرگس یار تیری دید کو
گل ہمہ تن گوش ہیں تیرے فسانے کے لیے
یوں مری قسمت میں تھا پرواز کرنا یا نصیب
نوچتے ہیں طفل پر میرے اڑانے کے لیے
کون ہوگا تیرے تیروں کا نشانہ میرے بعد
خاک لے جانا مری تودہ بنانے کے لیے
بزم عالم میں کھڑا ہوں پر چلا جاتا ہوں میں
سیکھ لی ہے شمع سے رفتار جانے کے لیے
کیوں دل بے تاب کو دکھلایا خال زیر زلف
دام میں مچھلی نہیں آنے کی دانے کے لیے
ہو اگر سرگشتگی میں فکر تعمیر مکاں
خاک اڑا لائے بگولہ گھر بنانے کے لیے
اب کسی گل رو کے دل میں کیجیے گھر اے وزیرؔ
کیا چمن میں تنکے چنئے آشیانے کے لیے
غزل
چھانتا ہے خاک کیا تو گھر بنانے کے لیے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی