چہرہ تو چمک دمک رہا ہے
اندر سے یہ شخص بجھ چکا ہے
تھی طبع رواں مثال دریا
دریا یہ مگر اتر گیا ہے
آنکھوں میں تھے خواب سو طرح کے
یہ رنگ محل اجڑ چکا ہے
نقش اس کے ہیں بے نمود سارے
نغمہ ایسا کہ بے صدا ہے
بیٹھا ہے اداس گھر میں تنہا
جیسے کوئی اس کو ڈھونڈھتا ہے
تم اس کو تلاش کیا کرو گے
خود اپنے سے جو بچھڑ چکا ہے
یہ رنگ سخن ہے خاص اس کا
اک ایسی غزل جو مرثیہ ہے

غزل
چہرہ تو چمک دمک رہا ہے
مشفق خواجہ