چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم
رات دن موتی ہی برساتے ہیں ہم
جبکہ وہ تیر نگہ کھاتے ہیں ہم
سہم کر بس سرد ہو جاتے ہیں ہم
جنس دل کو چھوڑ مت اے زلف یار
ہے یہ سودا مفت ٹھہراتے ہیں ہم
ناصحا دست جنوں سے کام ہے
کب یہ چاک جیب سلواتے ہیں ہم
اس قدر مت کر شرارت شعلہ خیز
تیری ان باتوں سے جل جاتے ہیں ہم
کون کہتا ہے نہ کیجے امتحاں
گر ابھی کہیے تو مر جاتے ہیں ہم
خط بت نو خط لکھے ہے غیر کو
پیچ و تاب اس واسطے کھاتے ہیں ہم
کھولیے کیا آنکھ مانند حباب
طرفۃ العین آہ مٹ جاتے ہیں ہم
چھیڑنے سے زلف کے الجھو نہ تم
پڑ گیا ہے پیچ سلجھاتے ہیں ہم
گرچہ ہیں درویش لیکن اے فلک
تجھ کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں ہم
نیم ناں کے واسطے کب جوں ہلال
تیرے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں ہم
گلشن دنیا ہے نیرنگی کے ساتھ
اور کچھ اس کی روش پاتے ہیں ہم
کب برنگ بوئے گل باہر صبا
اپنے جامے سے نکل جاتے ہیں ہم
جس قدر ہاں دیکھتے ہیں اوڑھنا
پاؤں یاں اتنے ہی پھیلاتے ہیں ہم
کیا کریں کس سے کہیں ناچار ہیں
دل کی بے تابی سے گھبراتے ہیں ہم
کوئی بھی اتنا نہیں کہتا نصیرؔ
صبر کر ظالم اسے لاتے ہیں ہم
غزل
چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم
شاہ نصیر