چشم نم دیدہ سہی خطۂ شاداب مرا
رات کی رات مہکتا ہے گل خواب مرا
اب تہی رخت بھی ہو کر میں تہی رخت نہیں
خواہش بادیہ پیمائی ہے اسباب مرا
ثبت کر اور کوئی مہر مرے ہونٹوں پر
قفل ابجد سے نہیں بند ہوا باب مرا
ساحل چشم پہ کپڑوں کو سکھانے والے
تو نے کب پار کیا تھا دل پایاب مرا
نام میرا تو کیا اس نے قلم زد لیکن
دفتر عشق سے خارج نہ ہوا باب مرا
جس قدر آئی فراخی مرے دل میں تابشؔ
اتنا ہی تنگ ہوا حلقۂ احباب مرا
غزل
چشم نم دیدہ سہی خطۂ شاداب مرا
عباس تابش