چشم جنوں میں حسن سلاسل ہے بے قرار
کس کی گلی میں جشن گریباں منائیں ہم
شاید کسی کا ہاتھ بڑھے بن کے مدعی
الزام کی تلاش میں دامن سجائیں ہم
روزن بنے گا دیدۂ یعقوب ایک دن
اپنے لیے خود آپ ہی زنداں بنائیں ہم
چھپنے لگی ہے زیست اندھیروں کی گود میں
آؤ تو پھر چراغ حوادث جلائیں ہم
شہر طرب میں ملتے ہیں اپنے بھی نقش پا
آئے نہ گر یقین تو آؤ دکھائیں ہم
جلوے ہی ڈس رہے ہیں شعور جمال کو
کس کو حدیث وادیٔ ایمن سنائیں ہم
دشت طلب کے خار بھی دل میں چبھوئیے
پھر کیسے لب پہ حرف تقاضا نہ لائیں ہم
عریاں کیا صلیب نے ہم کو بھی اپنے ساتھ
سوچا تھا آسمان چہارم پہ جائیں ہم
پھر گرم ریت اڑ کے چلی بستیوں کی سمت
محمل نشیں کو ڈھونڈ کے صحرا میں لائیں ہم
زہراب بن چکا ہے یہ احساس آگہی
اب کس کو بخت درد کا درماں بنائیں ہم

غزل
چشم جنوں میں حسن سلاسل ہے بے قرار (ردیف .. م)
حسن بخت