چراغ شوق جلا کر کہاں سے جانا تھا
ہمیں تو ہو کے صف دشمناں سے جانا تھا
یہ دل یہ شہر وفا کب اسے پسند آیا
وہ بے قرار تھا اس کو یہاں سے جانا تھا
نظر میں رکھا نہیں ایک بھی ستارہ ترا
کہ خاک زاد تھے ہم آسماں سے جانا تھا
کسی بہانے سہی زندگی کا قرض اترا
ہمیں تو ویسے بھی اک روز جاں سے جانا تھا
ندی میں رہ کے چٹانوں سے درگزر کرنا
یہ ہم نے فطرت موج رواں سے جانا تھا
غزل
چراغ شوق جلا کر کہاں سے جانا تھا
خاور اعجاز