چراغ حسرت و ارماں بجھا کے بیٹھے ہیں
ہر ایک طرح سے خود کو جلا کے بیٹھے ہیں
نہ کوئی راہ گزر ہے نہ کوئی ویرانہ
غم حیات میں سب کچھ لٹا کے بیٹھے ہیں
جنوں کی حد ہے کہ ہوش و خرد کی منزل ہے
خبر نہیں ہے کہاں آج آ کے بیٹھے ہیں
کبھی جو دل نے کہا اب چلو یہاں سے چلیں
تو اٹھ کے عالم وحشت میں جا کے بیٹھے ہیں
یہ کس جگہ پہ قدم رک گئے ہیں کیا کہیے
کہ منزلوں کے نشاں تک مٹا کے بیٹھے ہیں
غزل
چراغ حسرت و ارماں بجھا کے بیٹھے ہیں
باقر مہدی