چند گھڑیاں نہیں گزری تھیں شناسائی کو
شعلہ اندام چلے آئے پذیرائی کو
کون جانے وہ حسیں تھا کہ تمنا میری
ڈھونڈ لائی تھی کہیں سے مری رسوائی کو
عکس ٹھہرا تھا مرے دیدۂ تر میں کب سے
آئینہ ڈھونڈ نہ پایا رخ زیبائی کو
ٹوٹ کر ریزہ ہوئے جاتے ہیں سب خواب مرے
کہہ دو گریہ نہ کرے چشم تماشائی کو
باد و باراں بھی نہیں بام نہیں در بھی نہیں
کوئی چھنیو نہ مرے گوشۂ تنہائی کو
اپنے احساس پہ کھینچو نہ لکیریں شہنازؔ
توڑ بھی ڈالو بت رہزن بینائی کو
غزل
چند گھڑیاں نہیں گزری تھیں شناسائی کو
شہناز مزمل