چناریں وادیوں میں مشتعل ہیں
دریغا سرو ابھی تک پا بہ گل ہیں
اٹھے ہیں لالۂ خونیں کفن پھر
یہی شعلے جہان مستقل ہیں
اگر دو گام پر منزل ہے پھر کیوں
چٹانیں زندگی کی منفعل ہیں
گلوں پر بے دلی کا رنگ کیوں ہے
عنادل صحن گلشن میں خجل ہیں
رفو ہو جائیں گے چاک بہاراں
خزاں کے گھاؤ دیکھو مندمل ہیں
کھنکتے ہی رہے شیشے تو کس کام
لبوں تک جام جا پہنچیں تو دل ہیں
گئے منزل بہ منزل دار تک ہم
مراحل عشق کے کب جاں گسل ہیں
ملے ہیں بعد مدت کے تو جانا
بہت اپنے کئے پر منفعل ہیں
ٹھکانہ کیا ہے ایسے دوستوں کا
مقابل ہیں نہ میرے متصل ہیں

غزل
چناریں وادیوں میں مشتعل ہیں
قیوم نظر