چنبیلی گھاس پر بکھری پڑی ہے
ہوا یہ باغ میں کیسی چلی ہے
لکیروں سے بنے اک آئینے میں
کسی کی شکل الجھی رہ گئی ہے
مری کھڑکی سے چڑیاں اڑ گئی ہیں
منڈیروں کی مرمت جب سے کی ہے
الٰہی خیر ہو یہ کون آیا
بہت بے وقت گھنٹی بج رہی ہے
نکل آئے اچانک گھاس میں پھول
ستاروں نے انہیں آواز دی ہے
خطیب شہر نے دیوار کیسی
دلوں کے آنگنوں میں کھینچ دی ہے
فقط تاریخ کو مذہب سمجھ کر
ابھی تک ہم نے کتنی بھول کی ہے
یہ سکوں کی تمنا کا ثمر ہے
مرے بالوں میں چاندی آ گئی ہے
اسی آلودہ پانی میں ہماری
تمہاری عمر بہتی جا رہی ہے
غزل
چنبیلی گھاس پر بکھری پڑی ہے
شاہنواز زیدی