EN हिंदी
چمن میں خار ہی کیا گل بھی دل فگار ملے | شیح شیری
chaman mein Khaar hi kya gul bhi dil-figar mile

غزل

چمن میں خار ہی کیا گل بھی دل فگار ملے

جعفر عباس صفوی

;

چمن میں خار ہی کیا گل بھی دل فگار ملے
فریب خوردۂ رنگینیٔ بہار ملے

مزہ تو جب ہے کہ وہ آفتاب صبح جمال
گلے لپٹ کے سر شام انتظار ملے

نگاہ یاس سے منہ تک رہا ہوں اک اک کا
کوئی تو بزم رقیباں میں غم گسار ملے

جنہوں نے اپنے لہو سے چمن کو سینچا تھا
انہیں کے جیب و گریبان تار تار ملے

میں ان کے وعدوں کا یوں بھی یقین کرتا ہوں
ملے ملے نہ ملے لطف انتظار ملے

قفس کے بعد چمن میں یہ دیکھنا ہے مجھے
خزاں ملے کہ وہاں موسم بہار ملے

وہی تو فکر سخن آج کل کرے جعفرؔ
جسے حیات کا ماحول خوش گوار ملے