چلے تھے ہم کہ سیر گلشن ایجاد کرتے ہیں
کہ اتنے میں اجل آ کر پکاری یاد کرتے ہیں
ہجوم آرزو سے شہر دل آباد کرتے ہیں
ہم اپنی خاک اپنے ہاتھ سے برباد کرتے ہیں
طرف داری نہ کر انصاف کر اے داور محشر
سزا دے ان بتوں کو ورنہ ہم فریاد کرتے ہیں
کبھی تو رنگ لائے گا کبھی تو گل کھلائے گا
ہم اپنا خون صرف گلشن ایجاد کرتے ہیں
ہمیں تو کار پردازان قدرت کھیل سمجھے ہیں
کبھی آباد کرتے ہیں کبھی برباد کرتے ہیں
کسی امید پر زندہ رہوں یا گھٹ کے مر جاؤں
وہ کیا کہتے ہیں اے قاصد وہ کیا ارشاد کرتے ہیں
حفیظؔ اپنی طبیعت پر مجھے خود رشک آتا ہے
مرے اشعار پر حضرت ہمیشہ صاد کرتے ہیں
غزل
چلے تھے ہم کہ سیر گلشن ایجاد کرتے ہیں
حفیظ جالندھری