EN हिंदी
چلا ہوں اپنی منزل کی طرف تو شادماں ہو کر | شیح شیری
chala hun apni manzil ki taraf to shadman ho kar

غزل

چلا ہوں اپنی منزل کی طرف تو شادماں ہو کر

فگار اناوی

;

چلا ہوں اپنی منزل کی طرف تو شادماں ہو کر
کہیں مایوسیٔ دل ہو نہ رہزن پاسباں ہو کر

ہماری داستاں ہو کر تمہاری داستاں ہو کر
کہاں پہنچی محبت کارواں در کارواں ہو کر

مرے ذوق عبودی کی تکمیل اے معاذ اللہ
جبیں انعام سجدہ دے رہی ہے آستاں ہو کر

خود اپنے سوز سے جلنا تو ہر اک شمع کو آیا
وہ پروانہ جو خاکستر ہے سوز دیگراں ہو کر

کلی کا مسکرانا کہہ رہا ہے داستاں ان کی
خزاں جب آئی ہم راہ بہار گلستاں ہو کر

ہمیں اجڑے نشیمن کی جب اپنے یاد آتی ہے
قفس کی تیلیاں جلتی ہیں شاخ آشیاں ہو کر

فگارؔ آہ و فغاں سے کم نہ تھی عظمت مرے غم کی
مگر کچھ اور رتبہ بڑھ گیا سوز نہاں ہو کر