چلا ہوں اپنی منزل کی طرف تو شادماں ہو کر
کہیں مایوسیٔ دل ہو نہ رہزن پاسباں ہو کر
ہماری داستاں ہو کر تمہاری داستاں ہو کر
کہاں پہنچی محبت کارواں در کارواں ہو کر
مرے ذوق عبودی کی تکمیل اے معاذ اللہ
جبیں انعام سجدہ دے رہی ہے آستاں ہو کر
خود اپنے سوز سے جلنا تو ہر اک شمع کو آیا
وہ پروانہ جو خاکستر ہے سوز دیگراں ہو کر
کلی کا مسکرانا کہہ رہا ہے داستاں ان کی
خزاں جب آئی ہم راہ بہار گلستاں ہو کر
ہمیں اجڑے نشیمن کی جب اپنے یاد آتی ہے
قفس کی تیلیاں جلتی ہیں شاخ آشیاں ہو کر
فگارؔ آہ و فغاں سے کم نہ تھی عظمت مرے غم کی
مگر کچھ اور رتبہ بڑھ گیا سوز نہاں ہو کر
غزل
چلا ہوں اپنی منزل کی طرف تو شادماں ہو کر
فگار اناوی