چلا آنکھوں سے جب کشتی میں وہ محبوب جاتا ہے
کبھی آنکھیں بھر آتی ہیں کبھی جی ڈوب جاتا ہے
کہو کیونکر نہ پھر ہووے گا دل روشن زلیخا کا
جہاں یوسف سا نور دیدۂ یعقوب جاتا ہے
جہاں کے خوب رو مجھ سے چرائیں کیوں نہ پھر آنکھیں
جو کوئی خورشید کو دیکھے سو وہ محجوب جاتا ہے
مرا آنسو بھی قاصد کی طرح اک دم نہیں رکتا
کسی بیتاب کا گویا لیے مکتوب جاتا ہے
یقیںؔ ہرگز کیا مت کر اتی تعریف لڑکوں کی
اسی باتوں ستی مضمون سا محبوب جاتا ہے
غزل
چلا آنکھوں سے جب کشتی میں وہ محبوب جاتا ہے
انعام اللہ خاں یقینؔ