EN हिंदी
چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے | شیح شیری
chap aae ki mulaqat ho aawaze se

غزل

چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے

مظفر وارثی

;

چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے
کب سے تنہائی لگی بیٹھی ہے دروازے سے

مجھ سے تصویر طلب کرتی ہیں میری آنکھیں
میں نے کچھ رنگ چنے تھے ترے شیرازے سے

صاف گوئی سے اب آئینہ بھی کتراتا ہے
اب تو پہچانتا ہوں خود کو بھی اندازے سے

میں تو مٹی کا بدن اوڑھ کے خود نکلا ہوں
کیا ڈراتی ہیں ہوائیں مجھے خمیازے سے

اپنے چہرے پہ نہ اوروں کے خد و خال سجا
روپ آتا ہے کہیں اترے ہوئے غازے سے

جھوٹی عظمت کی پجاری ہے مظفرؔ دنیا
پستہ قد لوگ بھی گزریں بڑے دروازے سے