چاند پر ہے مجھے تیرا ہی گماں آج کی رات
سوجھتا ہی نہیں کچھ سود و زیاں آج کی رات
درد انسان میں انسان مٹا جاتا ہے
اک نئے عہد کا ملتا ہے نشاں آج کی رات
جامۂ ہستی انساں ہے برنگ ماتم
اٹھ رہا ہے شمع سوزاں سے دھواں آج کی رات
اک نئے موڑ پہ ہے درد محبت اپنا
داروئے درد ہے خود درد جہاں آج کی رات
اے ستاروں کے خداوند یہ کیا عالم ہے
چاندنی میں بھی ہے تاریک جہاں آج کی رات
کیا ہے معراج یہی درد کی لذت اپنی
کیا اسی میں ہیں رموز دو جہاں آج کی رات
دور سے آتی ہیں کانوں میں دلوں کی آہیں
کیا انہیں میں ہے خداوند جہاں آج کی رات
جو بھی مظلوم ہے دل اس کے لئے روتا ہے
میری ہر سانس میں ہے شور فغاں آج کی رات

غزل
چاند پر ہے مجھے تیرا ہی گماں آج کی رات
عشرت انور