چاند کا پتھر باندھ کے تن سے اتری منظر خواب میں چپ
چڑیاں دور سدھار گئیں اور ڈوب گئی تالاب میں چپ
لفظوں کے بٹوارے میں اس چیخ بھرے گہوارے میں
بول تو ہم بھی سکتے ہیں پر شامل ہے آداب میں چپ
پہلے تو چوپال میں اپنا جسم چٹختا رہتا تھا
چل نکلی جب بات سفر کی پھیل گئی اعصاب میں چپ
اب تو ہم یوں رہتے ہیں اس ہجر بھرے ویرانے میں
جیسے آنکھ میں آنسو گم ہو جیسے حرف کتاب میں چپ
اپنی آہٹ کو بھی اپنے ساتھ نہیں لے جاتے وہ
تیری راہ پہ چلنے والے رکھتے ہیں اسباب میں چپ
غزل
چاند کا پتھر باندھ کے تن سے اتری منظر خواب میں چپ
عباس تابش