چاند اپنی وسعتوں میں گم شدہ رہ جائے گا
ہم نہ ہوں گے تو کہاں کوئی دیا رہ جائے گا
رفتہ رفتہ ذہن کے سب قمقمے بجھ جائیں گے
اور اک اندھے نگر کا راستہ رہ جائے گا
تتلیوں کے ساتھ ہی پاگل ہوا کھو جائے گی
پتیوں کی اوٹ میں کوئی چھپا رہ جائے گا
زرد پتوں کی طرح اک دن بکھر جائے گا تو
جا چکے موسم کو تنہا سوچتا رہ جائے گا
شہر ویراں میں ہزاروں خواب لے کر اک دیا
زد پہ طوفانوں کی ہوگا اور جلا رہ جائے گا
ڈوبتے تاروں کی صورت کچھ لکیریں چھوڑ کر
میرے ہونے اور نہ ہونے کا سرا رہ جائے گا
آندھیاں کر دیں گی گل عشرتؔ فصیلوں کے چراغ
اک دیا لیکن تمنا کا جلا رہ جائے گا
غزل
چاند اپنی وسعتوں میں گم شدہ رہ جائے گا
عشرت رومانی