EN हिंदी
چاہ کی تم سے التجا کی ہے | شیح شیری
chah ki tum se iltija ki hai

غزل

چاہ کی تم سے التجا کی ہے

محمد منشاء الرحمن خاں منشاء

;

چاہ کی تم سے التجا کی ہے
ہم نے کتنی حسیں خطا کی ہے

ظلم جن دوستوں نے ڈھائے ہیں
دل نے ان کے لیے دعا کی ہے

زلف ہستی سنوارنے کے لیے
ہم نے کوشش تو بارہا کی ہے

ڈوبتے ہیں سفینے ساحل پر
سب عنایت یہ نا خدا کی ہے

اس پہ بندوں کی حاکمی کیسی
جب یہ ساری زمیں خدا کی ہے

جان پر اپنی کھیل کر منشاؔ
کرنے والوں نے یاں وفا کی ہے