چاہ کی تم سے التجا کی ہے
ہم نے کتنی حسیں خطا کی ہے
ظلم جن دوستوں نے ڈھائے ہیں
دل نے ان کے لیے دعا کی ہے
زلف ہستی سنوارنے کے لیے
ہم نے کوشش تو بارہا کی ہے
ڈوبتے ہیں سفینے ساحل پر
سب عنایت یہ نا خدا کی ہے
اس پہ بندوں کی حاکمی کیسی
جب یہ ساری زمیں خدا کی ہے
جان پر اپنی کھیل کر منشاؔ
کرنے والوں نے یاں وفا کی ہے

غزل
چاہ کی تم سے التجا کی ہے
محمد منشاء الرحمن خاں منشاء