بتوں کی کاکلوں کے دیکھ کر پیچ
پڑے ہیں دل پہ کیا کیا پیچ پر پیچ
طریق عشق بے رہبر نہ ہو طے
کہ ہے یہ رہ نہایت پیچ در پیچ
نہ ہووے دل کی تکل کٹ کے برباد
اگر ڈالے نہ وہ تار نظر پیچ
وہ زلف اس کی جو ہے پر پیچ و پر خم
کمند جاں ہے اے دل اس کا ہر پیچ
نظیرؔ اک روز اپنے زخم سر کو
جو باندھا ہم نے دے کر بیشتر پیچ
نظر کرتے ہی اس سرکش نے اک بار
کہا کر کے سخن کا مختصر پیچ
دعا دیجے ہماری تیغ کو آج
کہ جس نے آپ کو بخشا یہ سر پیچ
غزل
بتوں کی کاکلوں کے دیکھ کر پیچ
نظیر اکبرآبادی