بتوں کے گھر کی طرف کعبہ کے سفر سے پھرے
ہزار شکر کہ جیتے خدا کے گھر سے پھرے
مریض ہجر کا کوئی علاج کر دیکھے
اثر دوا سے دوا حکم چارہ گر سے پھرے
مہینے بھر کا تو رستہ ہے پر دعا یہ ہے
کہ پیشتر وہ قمر دورۂ قمر سے پھرے
نگاہ لطف سے دیکھو شباب آ جائے
شب گزشتہ ابھی گردش نظر سے پھرے
وہ رشک مہر جو ساقی ہو عمر باقی ہو
زیادہ ساغر مے چرخ فتنہ گر سے پھرے
نگاہ پھیرنے میں لطف کیا ہے رہنے دو
یہ تیر کس لئے الٹا مرے جگر سے پھرے
کہیں گے بعد فنا ہم سے دوستان عدم
بھرے پرے کہ تہی دست اس سفر سے پھرے
نہ مانگیں بوسۂ رخسار چھاتیاں نہ چھوئیں
طبیعت اپنی جو اے بت گل و ثمر سے پھرے
فلک نے کوچۂ مقصد کی بند کی راہیں
بھلا بتاؤ کہ قسمت مری کدھر سے پھرے
دکھائے موج زنی بحر اشک اگر اپنا
ہر آسیائے فلک آب چشم تر سے پھرے
منیرؔ کو ہے وہ دوران سر معاذ اللہ
کہ سننے والوں کا سر ذکر درد سر سے پھرے
غزل
بتوں کے گھر کی طرف کعبہ کے سفر سے پھرے
منیرؔ شکوہ آبادی