بلند و پست کا ہر دم خیال رکھنا ہے
ہمیشہ ہاتھ میں کار محال رکھنا ہے
وہ مجھ سے طالب بیعت ہوا ہے اور مجھے
جنوں کے ہاتھ پہ دست سوال رکھنا ہے
کوئی تو آ کے گنے گا جراحتیں دل کی
ہرا بھرا ہمیں طاق ملال رکھنا ہے
مرے چراغ کی لو سے مسابقت کیسی
مجھے اسی پہ عروج و زوال رکھنا ہے
کہیں تو ختم ہوا ہوگا رات کا افسوں
وہیں پہ عقدۂ صبح وصال رکھنا ہے
شکست بے ہنری کی سند نہیں ملتی
گرفت میں ابھی کلک کمال رکھنا ہے
وہ مہربان نہیں ہے تو پھر خفا ہوگا
کوئی تو رابطہ اس کو بحال رکھنا ہے
بجائے اس کے کہ ہم بے حسوں میں گن لئے جائیں
سخن کے ساتھ ہی حسن مجال رکھنا ہے
نظر نہ آئے قلمرو میں کوئی حرف جنوں
تمام زیر و زبر پائمال رکھنا ہے
غزل
بلند و پست کا ہر دم خیال رکھنا ہے
ابو الحسنات حقی