بلاوا کون سا کوہ ندا میں رکھا ہے
چراغ ہم نے جو اپنا ہوا میں رکھا ہے
وہ چاہے بخش دے ذلت کہ سرفراز کرے
بس اک یقیں ہے جو ہم نے خدا میں رکھا ہے
عدم وجود میں بھرتی ہے اک رگ موجود
اب اور اس کے سوا کیا دعا میں رکھا ہے
نہ خود شناسی اگر ہو تو کیا نشاط عشق
رقم نہ ہو تو کیا حرف نوا میں رکھا ہے
سفر نہ ہو تو یہ لطف سفر ہے بے معنی
بدن نہ ہو تو بھلا کیا قبا میں رکھا ہے
جو دیکھو غور سے کچھ کم نہیں ہے یہ بھی طورؔ
اک اضطرار سکون ہوا میں رکھا ہے
غزل
بلاوا کون سا کوہ ندا میں رکھا ہے
کرشن کمار طورؔ