بجھتے سورج کے شرارے نور برسانے لگے
رفتہ رفتہ چاند تاروں میں نظر آنے لگے
کر گیا بیدار پتھر کو فن خارا تراش
کتنے نادیدہ صنم آنکھوں میں لہرانے لگے
موج بوئے گل سے بھڑکی ہیں دبی چنگاریاں
پھر ہوا کے سرد جھونکے جسم جھلسانے لگے
کٹ کے رہ جائے گی آخر قسمت غم کی لکیر
تیرے زندانی اگر زنجیر کھڑکانے لگے
سر پہ سورج تھا تو نقش پا بھی روشن تھے صمدؔ
دھوپ کے ڈھلتے ہی سائے پاؤں پھیلانے لگے

غزل
بجھتے سورج کے شرارے نور برسانے لگے
صمد انصاری