بجھ کر بھی شعلہ دام ہوا میں اسیر ہے
قائم ابھی فضا میں دھوئیں کی لکیر ہے
گزرا ہوں اس کے در سے تو کچھ مانگ لوں مگر
کشکول بے طلب ہے صدا بے فقیر ہے
جو چاہے اچھے داموں میں اس کو خرید لے
وہ آدمی برا نہیں پر بے ضمیر ہے
دل پر لگی ہے سب کے وہی مہر برف کی
ظاہر میں گرم جوشیٔ دست سفیر ہے
ڈھونڈے سے آدمی نہیں ملتا یہاں پہ زیبؔ
یوں اس دیار بحر میں گوہر کثیر ہے
غزل
بجھ کر بھی شعلہ دام ہوا میں اسیر ہے
زیب غوری