بولنا بادہ کشوں سے نہ ذرا اے واعظ
کان پکڑوں گا جو قلقل کو سنا اے واعظ
دختر رز کو جو کہتا ہے برا اے واعظ
اس عفیفہ نے ترا کیا ہے کیا اے واعظ
جام کوثر کی جو خواہش ہے دم بادہ کشی
بزم رندان قدح نوش میں آ اے واعظ
جوشش شیشہ و ساغر شکنی کا ہے بیاں
منہ توڑے کوئی بدمست ترا اے واعظ
جام مے دور میں لا چرخ کہن کی صورت
دیکھتا ہے جو تجھے رنگ نیا اے واعظ
ٹوٹ جائے نہ کہیں تیرے کڑے ہاتھوں سے
دل مرا شیشۂ نازک ہے سنا اے واعظ
لوٹ ہو تو جو نہ مستوں کی طرح کیا معنی
منہ لگا بنت عنب کو تو ذرا اے واعظ
پارسائی تو ذرا زاہد مکار کی دیکھ
رہن مے خرقہ سالوس ہوا اے واعظ
چڑھ کے منبر پہ نہ مکار دروغ اتنا بول
منہ میں بو آتی ہے جھوٹے کے سنا اے واعظ
ہر نفس شادؔ یہی قول ہے متوالوں کا
ہم نے سونپا تجھے شیطان کو جا اے واعظ
غزل
بولنا بادہ کشوں سے نہ ذرا اے واعظ
شاد لکھنوی