بوجھ سا بڑھ جاتا ہے دل پر شام ڈھلے
رک جاتی ہیں سانسیں پل بھر شام ڈھلے
کھل اٹھتا ہے اس کی یاد کا اک اک رنگ
جاگ اٹھتے ہیں کیا کیا منظر شام ڈھلے
آگ مرے شریانوں کی لو دینے لگی
پگھلا اس کی انا کا پتھر شام ڈھلے
گہرے ہوں گے سرگوشی کے سائے ابھی
کھل جائے گا لپٹا بستر شام ڈھلے
کس کو بتاؤں گم ہے مری اپنی پہچان
مجھ سے جدا ہے میرا پیکر شام ڈھلے
اک آندھی سا گھٹتا بڑھتا شور نفس
بھر جاتا ہے ذہن کے اندر شام ڈھلے
دل کے اک گوشے میں سمٹ آتے ہیں رمزؔ
ساتوں آسماں ساتوں سمندر شام ڈھلے
غزل
بوجھ سا بڑھ جاتا ہے دل پر شام ڈھلے
محمد احمد رمز