بساط ذات پتھرائی تو جانا
خبر اخبار میں آئی تو جانا
سفر آساں نہیں ہے پانیوں کا
جو تلوے آ گئی کائی تو جانا
لہو کیا چیز ہے اظہار کیا ہے
غزل کچھ اور بل کھائی تو جانا
تو وہ بھی جھوٹ چہرہ جی رہا تھا
جو اس کی آنکھ بھر آئی تو جانا
وراثت ساری اپنے نام کر لی
مگر اس نے مجھے بھائی تو جانا
گھروندے میں بھی اک آتش کدہ تھا
ہماری جاں پہ بن آئی تو جانا
تھی محسنؔ یہ بھی جنس نا مبارک
ہوئی شہرت کی رسوائی تو جانا

غزل
بساط ذات پتھرائی تو جانا
محسن جلگانوی