بن مانگے مل رہا ہو تو خواہش فضول ہے
سورج سے روشنی کی گزارش فضول ہے
کسی نے کہا تھا ٹوٹی ہوئی ناؤ میں چلو
دریا کے ساتھ آپ کی رنجش فضول ہے
نابود کے سراغ کی صورت نکالئے
موجود کی نمود و نمائش فضول ہے
میں آپ اپنی موت کی تیاریوں میں ہوں
میرے خلاف آپ کی سازش فضول ہے
اے آسمان تیری عنایت بجا مگر
فصلیں پکی ہوئی ہوں تو بارش فضول ہے
جی چاہتا ہے کہہ دوں زمین و زماں سے میں
منزل اگر نہیں ہے تو گردش فضول ہے
انعام ننگ و نام مرے کام کے نہیں
مجذوب ہوں سو میری ستائش فضول ہے
غزل
بن مانگے مل رہا ہو تو خواہش فضول ہے
شاہد ذکی