بگڑی ہوئی قسمت کو بدلتے نہیں دیکھا
آ جائے جو سر پر اسے ٹلتے نہیں دیکھا
کیوں لوگ ہوا باندھتے ہیں ہمت دل کی
ہم نے تو اسے گر کے سنبھلتے نہیں دیکھا
ہم جور بھی سہہ لیں گے مگر ڈر ہے تو یہ ہے
ظالم کو کبھی پھولتے پھلتے نہیں دیکھا
احباب کی یہ شان حریفانہ سلامت
دشمن کو بھی یوں زہر اگلتے نہیں دیکھا
اشکوں میں سلگتی ہوئی امید کو دیکھو
پانی سے اگر گھر کوئی جلتے نہیں دیکھا
ہر دم مرے دل ہی کو جلاتی رہیں آہیں
گھر غیر کا لیکن کبھی جلتے نہیں دیکھا
وہ راہ سجھاتے ہیں ہمیں حضرت رہبر
جس راہ پہ ان کو کبھی چلتے نہیں دیکھا
الفت میں اگر جان نکل جائے تو سچ ہے
دل سے مگر ارمان نکلتے نہیں دیکھا
کیوں چاہنے والوں سے خفا آپ ہیں اتنے
پروانوں سے یوں شمع کو جلتے نہیں دیکھا
ہر ایک علاج دل بیتاب ہے بے سود
اس کو تو کسی طور بہلتے نہیں دیکھا
اے عرشؔ گنہ بھی ہیں ترے داد کے قابل
تجھ کو کف افسوس بھی ملتے نہیں دیکھا
غزل
بگڑی ہوئی قسمت کو بدلتے نہیں دیکھا
عرش ملسیانی