EN हिंदी
بھولوں انہیں کیسے کیسے کیسے | شیح شیری
bhulon unhen kaise kaise kaise

غزل

بھولوں انہیں کیسے کیسے کیسے

عبد العزیز خالد

;

بھولوں انہیں کیسے کیسے کیسے
وہ لمحے جو تیرے ساتھ گزرے

ہے راہنما جبلت ان کی
بے حس نہیں موسمی پرندے

اے دانشور مفر نہیں ہے
اقرار وجود کبریا سے

جانا کوئی کارساز بھی ہے
ٹوٹے بن بن کے جب ارادے

محراب عمود برج قوسیں
رس میں ڈوبے بھرے بھرے سے

بحر کافور میں تلاطم
بھونرا بیٹھا کنول کو چوسے

چاک افقی حریم زہرہ
رہ رہ کے مدن ترنگ جھلکے

جھلمل جھلمل بدن کا سونا
لہرائیں لٹیں کمر سے نیچے

کیا چاند سی صورتیں بنائیں
قربان اے نیلی چھتری والے