EN हिंदी
بھولے بسرے موسموں کے درمیاں رہتا ہوں میں | شیح شیری
bhule-bisre mausamon ke darmiyan rahta hun main

غزل

بھولے بسرے موسموں کے درمیاں رہتا ہوں میں

احمد مشتاق

;

بھولے بسرے موسموں کے درمیاں رہتا ہوں میں
اب جہاں کوئی نہیں وہاں رہتا ہوں میں

دن ڈھلے کرتا ہوں بوڑھی ہڈیوں سے ساز باز
جب تلک شب ڈھل نہیں جاتی جواں رہتا ہوں میں

کیا خبر ان کو بھی آتا ہو کبھی میرا خیال
کن ملالوں میں ہوں کیسا ہوں کہاں رہتا ہوں میں

جگمگاتے جاگتے شہروں میں رہتا ہوں ملول
سوئی سوئی بستیوں میں شادماں رہتا ہوں میں

بوتا رہتا ہوں ہوا میں گم شدہ نغموں کے بیج
وہ سمجھتے ہیں کہ مصروف فغاں رہتا ہوں میں