EN हिंदी
بھولے بسرے ہوئے غم یاد بہت کرتا ہے | شیح شیری
bhule-bisre hue gham yaad bahut karta hai

غزل

بھولے بسرے ہوئے غم یاد بہت کرتا ہے

والی آسی

;

بھولے بسرے ہوئے غم یاد بہت کرتا ہے
میرے اندر کوئی فریاد بہت کرتا ہے

روز آتا ہے جگاتا ہے ڈراتا ہے مجھے
تنگ مجھ کو مرا ہم زاد بہت کرتا ہے

مجھ سے کہتا ہے کہ کچھ اپنی خبر لے بابا
دیکھ تو وقت کو برباد بہت کرتا ہے

نکلی جاتی ہے مرے پاؤں کے نیچے سے زمیں
آسماں بھی ستم ایجاد بہت کرتا ہے

کچھ تو ہم صبر و رضا بھول گئے ہیں شاید
اور کچھ ظلم بھی صیاد بہت کرتا ہے

اس کے جیسا تو کوئی چاہنے والا ہی نہیں
کر کے پابند جو آزاد بہت کرتا ہے

بستیوں میں وہ کبھی خاک اڑا دیتا ہے
کبھی صحراؤں کو آباد بہت کرتا ہے

غم کے رشتوں کو کبھی توڑ نہ دینا والیؔ
غم خیال دل نا شاد بہت کرتا ہے