بھول جاتے ہیں تقدس کے حسیں پل کتنے
لوگ جذبات میں ہو جاتے ہیں پاگل کتنے
روز خوشبو کے مقدر میں رہی خود سوزی
اپنی ہی آگ میں جلتے رہے صندل کتنے
سبز موسم نہ یہاں پھر سے پلٹ کر آیا
ہو گئے زرد مرے گاؤں کے پیپل کتنے
خود کشی قتل انا ترک تمنا بیراگ
زندگی تیرے نظر آنے لگے حل کتنے
بارشیں ہوتی ہیں جس وقت بھری آنکھوں کی
راکھ ہو جاتے ہیں جلتے ہوئے آنچل کتنے
ہر قدم کوئی درندہ کوئی خونخوار عقاب
شہر کی گود میں آباد ہیں جنگل کتنے
بے رخی اس کی رلائے گی لہو کیا شبنمؔ
زخم کھاتے ہی رہے ہم تو مسلسل کتنے

غزل
بھول جاتے ہیں تقدس کے حسیں پل کتنے
رفیعہ شبنم عابدی