بھٹکتا کارواں ہے اور میں ہوں
تلاش رائیگاں ہے اور میں ہوں
بتاؤں کیا تمہیں حاصل سفر کا
ادھوری داستاں ہے اور میں ہوں
نیا کچھ بھی نہیں قصے میں میرے
وہی بوجھل سماں ہے اور میں ہوں
ہر اک جانب طلسماتی مناظر
نظر کا امتحاں ہے اور میں ہوں
کوئی شاہد نہیں سجدوں کا میرے
جبیں پر اک نشاں ہے اور میں ہوں
شکستہ بال و پر تکتے ہیں مجھ کو
فصیل آسماں ہے اور میں ہوں
دعا مانگوں کہاں کس در پہ جا کے
دیار بے اماں ہے اور میں ہوں
بہت دھندلی نظر آتی ہے دنیا
امیدوں کا دھواں ہے اور میں ہوں
بھٹکتا ہوں زمیں پر سر برہنہ
فلک کا سائباں ہے اور میں ہوں
غزل
بھٹکتا کارواں ہے اور میں ہوں
منیش شکلا