بھریں نہ وقت کے ہاتھوں جراحتیں تیری
رکھیں سنبھال کے دل نے امانتیں تیری
چھپا کے تجھ سے کہاں اپنے روز و شب لے جاؤں
جہان نور ترا اور ظلمتیں تیری
بچھڑ کے تجھ سے ملا عمر بھر کا سناٹا
بنا گئیں مجھے تنہا رفاقتیں تیری
تو ہے وہ فاتح عالم کہ ایک دنیا نے
شکست کھا کے سراہی ہی ہمتیں تیری
ترے نقوش قدم سے بہار تھی ان کی
ہیں منتظر مرے دل کی مسافتیں تیری
کہاں ہے شام تمنا ملاحتوں کا وہ رنگ
کہاں ہیں صبح تصور صباحتیں تیری
دل حزیں تری چوکھٹ پہ عمر کون گنوائے
کبھی سمجھ میں نہ آئیں ضرورتیں تیری
ازل سے شیشۂ گردوں میں ریت چلتی ہے
کبھی شمار میں آئیں نہ ساعتیں تیری
تو میری شرکت ہستی کہیں قبول تو کر
تمام رنج مرے سب مسرتیں تیری

غزل
بھریں نہ وقت کے ہاتھوں جراحتیں تیری
خورشید رضوی