EN हिंदी
بھرے جہاں میں کوئی رازدار بھی نہ ملا | شیح شیری
bhare jahan mein koi raazdar bhi na mila

غزل

بھرے جہاں میں کوئی رازدار بھی نہ ملا

مہر چند کوثر

;

بھرے جہاں میں کوئی رازدار بھی نہ ملا
قرار ڈھونڈنے نکلے قرار بھی نہ ملا

یہ میری سوختہ بختی نہیں تو پھر کیا ہے
وہ پھول لائے تو میرا مزار بھی نہ ملا

نہ جانے کیسی کرامت تھی دست ساقی میں
بہ قید ہوش کوئی ہوشیار بھی نہ ملا

چمن چمن میں اداسی کا بول بالا ہے
بہار کیسی نشان بہار بھی نہ ملا

بہت تھے عیش کے لمحوں میں جاں نثار اپنے
پڑا جو وقت کوئی غم گسار بھی نہ ملا

میں اپنے گاؤں میں رہ کر بھی اجنبی ہی رہا
مجھے تو اپنوں سے تھوڑا سا پیار بھی نہ ملا

خراب ہی رہی قسمت خزاں نصیبوں کی
بہار آئی تو لطف بہار بھی نہ ملا

ہنسی تو اپنا مقدر نہ تھی مگر کوثرؔ
ہمیں تو رونے پہ کچھ اختیار بھی نہ ملا