بے وفا کے وعدہ پر اعتبار کرتے ہیں
وہ نہ آئے گا پھر بھی انتظار کرتے ہیں
لوگ اب محبت میں کاروبار کرتے ہیں
دل بچا کے رکھتے ہیں جاں شکار کرتے ہیں
عشرتیں جہاں بھر کی بس انہیں کا حصہ ہے
جو روش زمانے کی اختیار کرتے ہیں
شخصیت میں جھانکیں تو اور ہی تماشہ ہے
باتیں جو نصیحت کی بے شمار کرتے ہیں
اپنے دم قدم سے تو دشت بھی گلستاں ہے
ہم جو خارزاروں کو لالہ زار کرتے ہیں
جان سے گزرتے ہیں بے خودی میں اہل دل
وہ جو چشم پر فن کو ذوالفقار کرتے ہیں
ہوں شگوفے شاخوں کے یا لویں چراغوں کی
سب ہوا کے دامن پر انحصار کرتے ہیں
ہم کہاں کے دانا ہیں کس ہنر میں یکتا ہیں
لوگ پھر بھی جانے کیوں ہم سے پیار کرتے ہیں
جس جگہ پہ خدشہ ہو پیر کے پھسلنے کا
ہم قدم وہیں اعجازؔ استوار کرتے ہیں
غزل
بے وفا کے وعدہ پر اعتبار کرتے ہیں
غنی اعجاز