بے ضمیروں کے کبھی جھانسے میں میں آتا نہیں
مشکلوں کی بھیڑ سے ہرگز میں گھبراتا نہیں
مجھ سے اب اپنی زباں سے کچھ کہا جاتا نہیں
جرم کر کے بھی کوئی مجرم سزا پاتا نہیں
میری خودداری سدا کرتی ہے میری رہبری
میں کبھی پتھر سے اپنے سر کو ٹکراتا نہیں
حق شناسی میرا مسلک حق پرستی میرا کام
میں کھلونوں سے کبھی دل اپنا بہلاتا نہیں
پیڑ جو دیتا ہے سایہ دھوپ میں رہتا ہے وہ
روشنی دیتا ہے جو وہ روشنی پاتا نہیں
آدمی کے پاس خود ذاتی مسائل ہیں بہت
دوسروں کے اب مسائل کوئی سلجھاتا نہیں
آرزوؤں کے چراغوں کو بجھا بیٹھا ہوں میں
کوئی انساں آ کے میرے دل کو بہلاتا نہیں

غزل
بے ضمیروں کے کبھی جھانسے میں میں آتا نہیں
عبرت بہرائچی