EN हिंदी
بے زبانی زبان ہوتی ہے | شیح شیری
be-zabani zaban hoti hai

غزل

بے زبانی زبان ہوتی ہے

نظر برنی

;

بے زبانی زبان ہوتی ہے
عشق کی داستان ہوتی ہے

دل کو آیا ہے پھر کسی کا خیال
پھر تمنا جوان ہوتی ہے

کون پائے گا تاب نظارہ
ان کی ابرو کمان ہوتی ہے

کیا ہوا لب اگر نہیں ہلتے
آنکھ خود اک زبان ہوتی ہے

جس کو کہتے ہیں زندگی سب لوگ
حسرتوں کا جہاں ہوتی ہے

ان کا جلوہ ہوا ہے پیش نظر
جستجو کامران ہوتی ہے