بے زبانی زبان ہوتی ہے
عشق کی داستان ہوتی ہے
دل کو آیا ہے پھر کسی کا خیال
پھر تمنا جوان ہوتی ہے
کون پائے گا تاب نظارہ
ان کی ابرو کمان ہوتی ہے
کیا ہوا لب اگر نہیں ہلتے
آنکھ خود اک زبان ہوتی ہے
جس کو کہتے ہیں زندگی سب لوگ
حسرتوں کا جہاں ہوتی ہے
ان کا جلوہ ہوا ہے پیش نظر
جستجو کامران ہوتی ہے
غزل
بے زبانی زبان ہوتی ہے
نظر برنی