بے وجہ نہیں گرد پریشاں پس محفل
آتا ہے کوئی بے سر و ساماں پس محفل
از بس کشش عشق سے آگاہ تھی لیلیٰ
تھی دیکھتی وہ فتنۂ دوراں پس محفل
کس سوختہ کی خاک سے اٹھا ہے بگولا
اک شعلۂ جوالہ ہے پیچاں پس محفل
فکر قدم ناقہ ہوا قیس کو پیدا
دیکھا جو ہیں صحرائے مغیلاں پس محفل
اے ناقہ کش اتنی بھی نہ تو تیز روی کر
مجنوں ز خود و رفتہ ہے نالاں پس محفل
شاید میں اسے دیکھوں ہوسؔ با لب خنداں
جاتا ہوں اس امید پہ گریاں پس محفل
غزل
بے وجہ نہیں گرد پریشاں پس محفل
مرزا محمد تقی ہوسؔ