EN हिंदी
بے سمجھے بوجھے محبت کی اک کافر نے ایمان لیا | شیح شیری
be-samjhe-bujhe mohabbat ki ek kafir ne iman liya

غزل

بے سمجھے بوجھے محبت کی اک کافر نے ایمان لیا

سراج لکھنوی

;

بے سمجھے بوجھے محبت کی اک کافر نے ایمان لیا
اب آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں کیوں دل کا کہنا مان لیا

ہم فکر میں تھے چھپ کر دیکھیں ان جلووں نے پہچان لیا
جب تک یہ نظر اٹھے اٹھے ظالم نے پردہ تان لیا

کیوں حسن گراں مایہ یہ کیا تیرے جلوے اتنے ارزاں
ایک ایک خدا اپنا اپنا جس نے جسے چاہا مان لیا

جس پر صدقے دونوں عالم اس اشک کی قیمت کیا کہئے
پلکوں پر اپنی تول چکے دامن میں کسی کے چھان لیا

یہ کوہ گراں ہلتے ہیں کہیں اور پھر مضبوط ارادوں کے
پتھر کی لکیر ہے اے ناصح جو ہم نے دل میں ٹھان لیا

جلوہ کہ فریب جلوہ تھا جو ہو تصویر مکمل تھی
اک شور اٹھا ہر جانب سے پہچان لیا پہچان لیا

مجھ سے تو کسی سے بیر نہ تھا دنیا مرے خون کی پیاسی ہے
مقتل کی طرف سے جو گزرا اک ہاتھ لہو میں سان لیا

ہونٹوں پہ بناوٹ کی وہ ہنسی فریاد کا عالم سانسوں میں
ظالم کی محبت چھپ نہ سکی جس نے دیکھا پہچان لیا

برسوں الجھے ارباب خرد یہ ایک گرہ اب تک نہ کھلی
سر آپ ہی جھک گئے سجدے میں گھبرا کے خدا کو مان لیا

مرنا ہو سراجؔ کہ جینا ہو بے منت غیر ہو جو کچھ ہو
کیا رہ گئی خنجر قاتل کا گردن پہ اگر احسان لیا