بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے
جانے کیا بات ہے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
ساغر بادۂ گل رنگ تو کچھ دور نہیں
نگہ پیر خرابات سے ڈر لگتا ہے
دل پہ کھائی ہوئی اک چوٹ ابھر آتی ہے
تیرے دیوانے کو برسات سے ڈر لگتا ہے
اے دل افسانۂ آغاز وفا رہنے دے
مجھ کو بیتے ہوئے لمحات سے ڈر لگتا ہے
ہاتھ سے ضبط کا دامن نہ کہیں چھٹ جائے
آپ کی پرسش حالات سے ڈر لگتا ہے
میں جو اس بزم میں جاتا نہیں اشعرؔ مجھ کو
اپنے سہمے ہوئے جذبات سے ڈر لگتا ہے
غزل
بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے
حبیب اشعر دہلوی