EN हिंदी
بے نشہ بہک رہا ہوں کب سے | شیح شیری
be-nashsha bahak raha hun kab se

غزل

بے نشہ بہک رہا ہوں کب سے

شہرت بخاری

;

بے نشہ بہک رہا ہوں کب سے
دوزخ ہوں دہک رہا ہوں کب سے

پتھر ہوئے کان موت کے بھی
سولی پہ لٹک رہا ہوں کب سے

جھڑتی نہیں گرد آگہی کی
دامن کو جھٹک رہا ہوں کب سے

لاہور کے کھنڈروں میں یا رب
بلبل سا چہک رہا ہوں کب سے

روشن نہ ہوئیں غزل کی شمعیں
شعلہ سا بھڑک رہا ہوں کب سے

تاریک ہیں راستے وفا کے
سورج سا چمک رہا ہوں کب سے

ٹوٹا نہ فسردگی کا جادو
غنچہ سا چٹک رہا ہوں کب سے

جلتا نہیں بے کسی کا خرمن
بجلی سا لپک رہا ہوں کب سے

اس حرص و ہوا کی تیرگی میں
سونا سا دمک رہا ہوں کب سے

سنسان ہے وادئی تکلم
بادل سا کڑک رہا ہوں کب سے

بستی کوئی ہو تو مل بھی جائے
صحرا میں بھٹک رہا ہوں کب سے

گلچیں کوئی ہو تو قدر جانے
جنگل میں مہک رہا ہوں کب سے

ہاں اے غم عشق مجھ کو پہچان
دل بن کے دھڑک رہا ہوں کب سے

پیمانۂ عمر کی طرح سے
ہر لمحہ چھلک رہا ہوں کب سے

معلوم یہ اب ہوا کہ شہرتؔ
دیوانہ ہوں بک رہا ہوں کب سے