EN हिंदी
بے چہرگیٔ غم سے پریشان کھڑے ہیں | شیح شیری
be-chehragi-e-gham se pareshan khaDe hain

غزل

بے چہرگیٔ غم سے پریشان کھڑے ہیں

نازش پرتاپ گڑھی

;

بے چہرگیٔ غم سے پریشان کھڑے ہیں
ہم پھر بھی وہ ظالم ہیں کہ جینے پر اڑے ہیں

غم سے جو بلند اور مسرت سے بڑے ہیں
ایسے بھی کئی داغ مرے دل پہ پڑے ہیں

تاریخ کے صفحوں پہ جو انسان بڑے ہیں
ان میں بہت ایسے ہیں جو لاشوں پہ کھڑے ہیں

کیا کیا نہ ہمیں گھر کی اداسی سے گلہ تھا
اب شہر سے نکلے ہیں تو حیران کھڑے ہیں

آئی نہ شکن میری جبیں پر رہ غم میں
کچھ آبلے پڑنے تھے سو تلووں میں پڑے ہیں

یادوں کے گھنے شہر میں کیوں کر کوئی نکلے
ہر فرد کے پیچھے کئی افراد کھڑے ہیں

رونا تو یہ ہے حلقۂ زنجیر کی صورت
حالات کے پیروں میں ہمیں لوگ پڑے ہیں

سورج جو چڑھے گا تو سمٹ جائیں گے یہ لوگ
سائے کی طرح قد سے جو دو ہاتھ بڑے ہیں

ہم پر جو گزرتی ہے اسے کس کو بتائیں
تنہائی کی آغوش میں صدیوں سے پڑے ہیں

حالات کے پتھراؤ سے بچ نکلیں تو جانو
شیشے کی طرح ہم بھی فریموں میں جڑے ہیں

اس دور خرد کا یہ المیہ ہے کہ انسان
آپ اپنی ہی لاشیں لئے کاندھوں پہ کھڑے ہیں

صدیاں ہیں کہ گزری ہی چلی جاتی ہیں نازشؔ
ہیں روز و مہ و سال کہ چپ چاپ کھڑے ہیں